Alfia alima

Add To collaction

خاندانی کرسی

خاندانی کرسی
ایئرپورٹ سے نکل کر جب وہ لاہور کی وسیع، شاداب اور خوبصورت سڑکوں سے اپنے بھتیجے کے ساتھ گزرنے لگا تو اسے انیس برس کے پرانے لاہور اور موجودہ لاہور میں کوئی خاص فرق محسوس نہ ہوا۔ کوئی بھی ایسی تبدیلی اسے نظر نہ آئی جو پرانے لاہور سے نئے لاہور کو الگ کرتی۔ وہی سب کچھ تو تھا جو وہ کبھی کبھی کسی دوست سےملنے یا صرف سیر و تفریح کی خاطران سڑکوں پر، گھومتے ہوئے ان سڑکوں کے دو رویہ کھڑے ہوئے درختوں پر اور ان بارونق دکانوں پر بارہا دیکھ چکا تھا۔ 

اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے اور پورے انہماک سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس کےجوان سال بھتیجے نے اس کے خیالات کاجائزہ لے لےا تھا اور اب اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔ 

’’انکل! شاید آپ سوچ رہے ہیں کہ لاہور تو وہی ہے۔‘‘ 

’’ہاں انور کچھ ایسی ہی سوچ میرے ذہن میں ہے۔‘‘ 

انور نےسرخ بتی دیکھ کر گاڑی روک لی تھی۔ 

’’انکل تبدیلی دیکھنی ہو تو اپنے گاؤں میں چل کر دیکھیے۔‘‘ 

’’میرا گاؤں تبدیل ہوچکا ہے؟‘‘ 

’’بلکہ یہ کہیے کہ وہ گاؤں رہا ہی نہیں۔ وہ آپ کا انیس سال پہلے کا گاؤں کچھ اور بن چکا ہے۔ 

’’تو کیا بن چکا ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔ 

’’شہر نما قصبہ۔‘‘ 

’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ 

’’تھوڑی دیر بعد آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔‘‘ 

گاڑی کبھی سست رفتار سے چل رہی تھی اور کبھی تیز رفتار سے۔ شہری آبادی کی رونق میں کمی ہوتی جارہی تھ ی۔ کہیں میدانی علاقہ تھا، کہیں کھیت ہی کھیت، کہیں کوئی ندی، کہیں نزد و دور اکا دکا مکان۔ انکل متجس نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ وہ حیران تھا کہ اتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد ابھی تک وہ اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچا۔ کیا اس کا بھتیجا کسی لمبے راستے سے تو نہیں اپنی گاڑی لے جارہا ہے۔ آخر اس سے رہانہ گیا۔ کہنےلگا: 

’’انور!‘‘ 

’’جی۔ انکل۔‘‘ 

’’تم کدھر سے چلے جا رہے ہو۔ ابھی کتنی دور ہےہمارا گاؤں؟‘‘ 

انور ہنس پڑا۔ 

انکل کو یہ بے تکی ہنسی بری لگی۔ 

’’انکل! ہم اپنے گاؤں میں چلے جا رہے ہیں۔‘‘ 

’’یہ ہمارا ہی گاؤں ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا جس میں اضطراب کا جذبہ غالب تھا۔ 

’’انکل! میں نے عرض کیا تھا نا کہ اب ہماراگاؤں شہر نما قصبہ بن چکا ہے۔‘‘ 

انور نے گاڑی روک لی تھی تاکہ اس کا انکل اس جگہ کو دیکھ لے جہاں سے وہ گزر رہے تھے۔ 

انکل جب اس جگہ رہتا تھا تو گاؤں کے ابتدائی حصے میں چھکڑے، تانگے اور رہڑھیاں بے ترتیبی کے عالم میں نظر آتی تھیں۔ ان کےنیچے ہر وقت کیچڑ رہتی تھی۔ ان سے کچھ دور جھگیاں ہوتی تھیں، کچے مکان ہوتے تھے جن میں گاؤں کے کھیت مزدور رہتے تھے۔ یہ سب کچھ کہاں غائب ہوگیا تھا۔ کیا انور کسی اور راہ سے تو نہیں گاؤں میں داخل ہوا۔ مگر اسے فوری طور پر خیال آیا کہ گاؤں کے اندر جانے کا تو صرف ایک ہی راستہ تھا جو چھکڑوں، تانگوں اور دہڑھیوں کے درمیان سے گزرتا تھا۔ پھر بھی اس نے پوچھ لیا۔ 

’’انور تم کسی اور راستے سے آئے ہو؟‘‘ 

’’اور تو کوئی راستہ ہے ہی نہیں انکل!‘‘ 

’’تو وہ چھکڑے؟‘‘ 

انکل کا بقیہ فقرہ بھتیجے کے پرزور قہقہے میں ڈوب گیا۔ قہقہے کے اختتام پر کہنے لگا۔ ’’وہ چھکڑے وغیرہ یہاں کہاں۔ انکل اب یہ آپ کا پرانا گاؤں نہیں رہا۔‘‘ 

گاڑی اب آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ 

ایک بڈھا، سر پر بڑا سا پگڑ، آنکھوں پر عینک، خراماں خراماں ایک طرف چلاجارہا تھا۔ انکل کو اس کے چہرے کے خدوخال میں کوئی شناسا علامت دکھائی دی۔ 

’’یہ موجو نمبردار تو نہیں؟‘‘ 

’’وہی ہے۔ اب یہ نہیں اس کا بڑا بیٹا نمبردار ہے۔‘‘ 

پرانے نمبر دار نے گاڑی کو دیکھا اور کسی قدر دور ہی سے سلام کےاندازمیں دایاں ہاتھ ہلاکر آگے بڑھ گیا۔ 

’’کیا یہ کوئی بڑا آدمی بن گیا ہے؟‘‘ انکل نے حیرت سے پوچھا۔ اس کے جواب میں انور صرف مسکرادیا۔ 

ایک کالا بھجنگ آدمی حقہ ہاتھ میں لیے چلا جا رہا تھا۔ 

’’یہ ہماری چلمیں بھرنے والا کالو تو نہیں؟‘‘ 

’’انکل پہچان لیا اسے؟‘‘ 

’’اس جیسا خوب صورت آدمی اور کون ہوگا سارے گاؤں میں؟‘‘ 

انور کا مسکراتا ہوا چہرہ ایک دم سنجیدہ سا ہوگیا۔ اسے اپنے انکل کا طنز شاید پسند نہیں آیا تھا۔ 

’’انکل! اب یہ چلمیں نہیں بھرتا۔ شان سے کھیتی باڑی کرتا ہے۔‘‘ 

گاڑی ایک حویلی کے سامنے رک گئی۔ 

’’پہچانا اپنی پرانی حویلی کو؟‘‘ 

انکل حیرت زدہ نگاہوں سے حویلی کو دیکھ رہا تھا۔ 

’’لگتی تو وہی ہے پردیسی رہی نہیں۔‘‘ 

’’دیکھ لیجیے ہمارے کام۔‘‘ 

دونوں گاڑی سے اترچکے تو انور نے جلدی سے حویلی کے دروازے پر پہنچ کر بلند آواز میں کہا۔ ’’انگل آگئے ہیں۔‘‘ یہ آواز فضا میں گونج ہی رہی تھی کہ دروازے پر عورتیں اور بچےآگئے۔ سب کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ ان سب نے انکل کو گھیرے میں لے لیا۔ بچے انکل سے لپٹ گئے اور ’’تایاجی آگئے۔ تایا جی آگئے،‘‘ کا شور مچانے لگے۔ عورتیں خاموش تھیں مگر ان کی نگاہوں میں حیرت اور خوشی بے اخیار چھلک رہی تھی۔ 

جیسے ہی انکل حویلی کے ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھا اس کے ارد گرد کئی عورتیں جمع ہوگئیں۔ سب کے ہونٹوں پر صرف ایک ہی سوال تھا۔ 

’’بھائی جان آپ گھر چھوڑ کر کیو ں چلے گئے تھے؟‘‘ 

’’بس چلا گیا تھا۔‘‘ 

’’انکل آپ نے کسی کو پہچانا بھی ہے۔‘‘ اور انکل کی نظریں عورتوں کے چہروں کاجائزہ لینے لگیں۔ ایک طرف اسے ایک مانوس سا چہرہ دکھائی دیا جو ایک نوجوان لڑکی کا ہاتھ پکڑے ہولے ہولے اپنا سر ہلا رہی تھی۔ 

’’پھاماں؟‘‘ 

’’پہچان لیا بھائی جان نے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ہنس پڑی اور اس کے سر سے چادر اتر گئی۔ 

’’یہ میری بیٹی نجمہ ہے۔آپ چلے گئے تھے تو پیدا ہوئی تھی۔‘‘ 

انکل نے اس کی بیٹی کو دیکھا۔ جس کا دوپٹہ اس کے گلے میں پڑا تھا۔ اس کے زمانے کی لڑکیوں کے سر تو بھاری بھاری چادروں سےڈھکے رہتے تھے۔ 

شام کے کھانے پر ڈائننگ ٹیبل کے گرد کرسیوں پر گاؤں کے کم و بیش سارے معززین جمع تھے اور انکل کو یہ بات عجیب سی لگی کہ ان لوگوں میں وہ بھی شامل تھے جو ایک زمانے میں ان کے کھیتوں میں کام کرچکے تھے۔ اسے زیادہ حیرت اس امر پر تھی کہ اس کے بھتیجے نے ان کا تعارف عزت و احترام کے ساتھ کرایا تھا۔ کھانے سے فراغت پانے کے بعد چائے کا دَور چلا۔ 

’’اب چائے پی جاتی ہے؟‘‘ 

’’ہاں انکل! شہروں میں چائے پی جاتی ہے تو آخر ہم نے کیا قصور کیا ہے کہ اس سے محروم ہیں‘‘ 

رات کے دس بجے انکل کو اس کی سجی سجائی خواب گاہ میں پہنچادیا گیا، صاف ستھرا بستر، دیواروں پر رنگارنگ تصویریں، زمین پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک دری بچھی ہوئی۔ اس کے اوپر میز، صوفہ سیٹ، کرسیاں۔ ایک طرف تپائی کے اوپر خوبصورت لیمپ، جس کی روشنی سارے کمرے میں پھیلی ہوئی۔ وہ جو کچھ دیکھ رہا تھا وہ اسے اجنبی اجنبی سا غیرمانوس سا لگ رہا تھا۔ 

’’گاؤں میں بجلی آگئی ہے۔ دس پندرہ روز تک ہماری حویلی میں بھی لگ جائے گی۔‘‘ اس کے بھتیجے نے بتادیا تھا۔ 

وہ پلنگ کے اوپر تکیے سے پشت لگائے نیم دراز تھا۔ اس کے سامنے لمبے صوفے پر انور اور اس کی جواں سال بیوی صفیہ بیٹھی تھی، دونوں بچے الگ الگ صوفوں میں دھنسے ہوئے تھے۔ انور کے پوچھنے پر وہ اسے تبارہا تھا کہ آج سے انیس برس پیشتر وہ کس طرح ایک تجارتی فرم کے ساتھ کلکتہ چلا گیا تھا،پھر کئی سال بنارس اور مدراس میں اس فرم کا کام کرتا رہا تھا۔ سب اس کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ 

’’انکل! کبھی گھر کی یاد آپ کو نہیں آئی تھی؟‘‘ 

’’کیوں نہیں، ہر سال سوچتا تھا کہ اگلے سال اپنے گاؤں چلا جاؤں گا مگر یہ پروگرام پورا نہیں ہوتا تھا۔‘‘ 

’’انکل! جب آپ یہاں تھے تو اس گھر میں صرف امی تھیں اور میں تھا۔ آپ کے جانے کے تین سال بعد امی کا انتقال ہوگیا۔ سال بعد میری شادی ہوگئی۔ پھر اکبر اور عامر آگئے۔‘‘ 

’’پیارے بچے ہیں۔‘‘ انکل نے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور وہ دونوں مسکرانے لگے۔ 

گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ باتیں ہوتی رہیں۔ انور اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھا۔ 

’’مجھے اپنےایک دوست کے ہاں بیمار پرسی کے لیے جانا ہے۔ شام کے بعد ضرور اس کے ہاں جاتا ہوں۔ انکل! آپ تھک چکے ہوں گے۔ سوجائیں۔‘‘ 

اور یہ کہہ کر انور کمرے سے نکل گیا۔ اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد اس کی بیوی اور بچے بھی چلے گئے۔ 

اب وہ کمرے میں تنہا تھا۔ 

اس نے لیمپ کی تبی نیچی کرکے سونے کی کوشش کی مگر نیند تو جیسے اس کی آنکھوں سے اڑ چکی تھی۔ 

وہ نیم تاریک، نیم روشن کمرے میں آہستہ آہستہ ٹہلنےلگا۔ پھر پلنگ پر گر پڑا۔ 

صبح سویرے ہی ہی خاموشی سے ناشتا کیا گیا۔ ناشتے کے بعد انور اپنے روزمرہ کام کاج کے لیے چلا گیا اور اپنی بیوی سے کہتا گیا۔ ’’انکل کو ذرا گھر کی سیر کرادینا۔‘‘ اور انکل نے یکے بعد دیگرے سارے کمرے دیکھ لیے۔ اس نے سارے کمرے دیکھنےکے بعد پوچھا۔ 

’’صفیہ بیٹی!‘‘ 

’’جی انکل۔‘‘ 

’’اس گھر کے ہر کمرے سے مجھے کسی قدر اپنائیت محسوس ہوئی ہے۔ مگر یہاں ایک کمرہ ایسا بھی تھا جس میں میری چیزیں پڑی رہتی تھیں۔‘‘ 

’’انکل وہ انہی کمروں میں سے کوئی ہوگا۔‘‘ 

’’نہیں صفیہ! وہ میرا کمرہ تھا وہاں آج بھی میری چیزیں ہوں گی۔‘‘ 

’’آپ کو تمام کے تمام کمرے تو دکھادیے ہیں۔‘‘ صفیہ نےیقینی لہجےمیں کہا۔ امی! وہ کمرہ تو نہیں دکھایا جس میں فضلو چوکیدار رہتا تھا۔‘‘ اس نے ماں سے مخاطب ہوکر کہا۔ 

صفیہ نے گھور کر بیٹے کی طرف دیکھا۔ 

’’یہ کمرہ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ 

’’انکل! کیا دیکھیں گے اس کے اندر جاکر۔ فضلو کے جانے کے بعد اس میں گھر کی ساری فضول اور بے کار چیزیں بھر دی گئی تھیں۔ برسوں سے اسے کسی نے کھولا ہی نہیں۔‘‘ صفیہ نے انکل کو ٹالنا چاہا۔ 

’’دیکھنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ 

’’انکل اتنے برےکمرے میں جاکر کیا کریں گے۔ ہر شے گرد و غبار سے اٹی پڑی ہوگی۔ اس کی تو کھڑکیاں بھی کسی نے کبھی نہیں کھولیں۔‘‘ 

’’پھر بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘ 

صفیہ نے دایاں ہاتھ اس انداز سے ہلایا جیسے کہہ رہی ہو، ’آپ کی مرضی۔‘ 

وہ کمرہ مکان کے کسی کمرے سے ملحق نہیں تھا بلکہ آخری کمرے سے ذرا فاصلے پر تھا۔ ان دونوں کے درمیان نالی کا پانی بہ رہا تھا، اینٹوں کے کچھ ڈھیر تھے۔ جم کر پتھر بناہوا سیمنٹ تھا اور گلی سڑی بوریاں تھیں۔ 

کمرے کادروازہ مقفل نہیں تھا مگر سالہا سال تک بند ہونےکی وجہ سے اسے کھولنے میں دقت پیش آرہی تھی۔ 

’’چھوڑیے انکل آپ کس وہم میں پڑگئے ہیں۔ کنڈی زنگ آلود ہوچکی ہے۔ کھلے گی نہیں۔ 

مگر انکل پر صفیہ کی بات کاکوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے اکبر سے کہہ کر باورچی خانے سے حمام دستہ منگوالیا اور کنڈی پر زور زور سے ضربیں لگانے لگا۔ آخر کار کنڈی کے دوٹکڑے ہوگئے۔ 

ہر طرف گہرا اندھیرا، کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بدبو کے بھبھوکے اس کے دماغ کو چھو رہے تھے۔ سینے میں سانس رک سی گئی تھی۔ اسی لمحے صفیہ کی چیختی ہوئی آواز گونجی۔ وہ اپنے بیٹوں کو اندر جانے سے بڑی سختی کے ساتھ منع کر رہی تھی۔ 

وہ کھڑا تھا۔ مبہوت، سراسیمہ، انکھیں پوری طرح کھلی ہوئی مگر نگاہیں ان کھلی ہوئی ہوئی آنکھوں میں منجمد۔ 

’’صفیہ!‘‘ 

’’جی، انکل۔‘‘ صفیہ کی دروازے کے باہر سے آواز آئی۔ 

’’بڑا اندھیرا ہے۔‘‘ 

’’یہ تو ہوگا ہی۔ برسوں سے بند پڑا ہے۔‘‘ 

’’لیمپ نہیں لےآئیں بیٹی؟‘‘ 

’’آپ دیکھنا کیا چاہتے ہیں یہاں۔ خیر، آپ کی مرضی۔‘‘ 

وہ اندھیرے میں کھڑا رہا۔ اس کے سر پر بوجھ پڑ رہا تھا۔ یہ مٹی تھی جو چھت سے گر رہی تھی۔ 

اس نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس کے پاؤں کسی بھاری بھرکم چیز کے آگے آنے سے رک گئے۔ 

صفیہ لیمپ لے کر دروازے پر پہنچ گئی تھی۔ وہ کمرے کے اندر نہیں جانا چاہتی تھی۔ 

لیمپ اس نے اپنے ہاتھ میں اٹھالیا۔ لگتا تھا یہ لیمپ کی روشنی اندھیرے کے سمندر میں ڈوبنے لگی ہے۔ دھیرے دھیرے اسے کچھ کچھ نظر آنےلگا۔ 

ٹوٹا پھوٹا فرنیچر، اینٹوں کے ڈھیر، پھٹے پرانے کپڑے۔ آہستہ آہستہ کچھ چیزیں اپنے مبہم سے سایے اس کی بصیرت پر ڈالنے لگیں۔ 

وہ انھیں دیکھ رہا تھا۔ یکایک اس کی آنکھوں کے ڈیلے پھیل گئے۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے جسم میں سرایت کر گئی۔ اس کی نظریں کمرے کے ایک کونےمیں جیسے جم کر رہ گئیں۔ 

یہ ایک کرسی کی شکل کی کوئی چیز نظر آرہی تھی۔ 

وہ اپنے پاؤں کے سامنے آنے والی چیزوں کو روندتا ہوا اس کونے کی طرف جارہاتھا۔ دروازے پر کھڑی صفیہ اس کی اس حرکت پر حیران ہو رہی تھی۔ 

وہاں پہنچ کر اس کے قدم رک گئے اور اس کا سر بے اختیاری کے عالم میں جھکنے لگا۔ 

’’انکل کو کیا ہوگیا ہے۔ پاگل تو نہیں ہو گیا؟‘‘ صفیہ سوچ رہی تھی۔ 

وہ اپنا ایک ہاتھ کرسی کے اوپر پھیر رہا تھا۔ دوسرے ہاتھ میں اس نے لیمپ تھام رکھا تھا۔ 

’’صفیہ!‘‘ 

’’جی انکل۔‘‘ 

’’کیا نام ہے تمہارے نوکر کا۔ بلاؤ اسے۔‘‘ 

غنی لڑکوں کے ساتھ باہر ہی کھڑا تھا۔ انکل کی آواز سن کر وہ دروازے پر آگیا۔ 

’’بلالیا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ 

’’جی میاں صاحب میں آگیا ہوں۔‘‘ غنی نے اونچی آواز میں کہا۔ 

’’اندر آؤ۔‘‘ 

غنی نے قدم اندر رکھا مگر یہ دیکھ کر کہ اس کے پاؤں مٹی میں دھنسے جارہے ہیں، وہیں ٹھہر گیا۔ 

’’حکم کیا ہے میاں جی۔‘‘ 

’’ادھر آؤ۔‘’ انکل کے لہجے میں درشتگی تھی۔ 

غنی نے صفیہ کی طرف دیکھا جو خاموش کھڑی تھی۔ 

’’کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ 

غنی کے اس فقرے پر انکل نے لیمپ والا ہاتھ بلند کردیا اور غنی بڑی تگ و دو کے بعد وہاں پہنچ گیا۔ 

’’دیکھو اس کرسی کے اٹھانےمیں میری مدد کرو۔‘‘ 

’’جی؟‘‘ غنی کو اتنی حیرت ہوئی کہ وہ ’جی‘ کے سوا اور کچھ کہہ ہی نہ سکا۔ 

انکل کرسی اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ ناچار غنی کو بھی اس کا ساتھ دینا پڑا اور چند منٹ کے بعد وہ گرد و غبار میں اٹی کرسی حویلی کے ڈرائنگ روم میں تھی۔ 

وہ اپنے صاف ستھرے رومال سے اس طرح کرسی صاف کر رہا تھا کہ فرطِ احترام سے بار بار اس کا ہاتھ رک جاتا تھا۔ کئی بار اس نے کرسی کے بازؤں کو، اس کی پشت کو چوماتھااور کمرے کے باہر صفیہ، غنی اور دونوں لڑکے انتہائی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ 

شام ہوگئی تھی جب انور گھر آیا۔ حویلی میں ہر طرف روشنیاں پھیل چکی تھیں۔ 

وہ سب سے پہلے انکل سے ملنے کے لیے ڈرائنگ روم میں پہنچا۔ 

انکل اسی کرسی کے نیچے قالین پر بیٹھا تھا اور آہستہ آہستہ اس کی بازوؤں پر ہاتھ پھیرنے میں محو تھا۔ 

ڈرائنگ روم کے قیمتی اور خوبصورت فرنیچر کے درمیان ایک انتہائی بوسیدہ، پرانی، بدوضع کرسی دیکھ کر اس کے غصے کا پارہ چڑھ گیا۔ 

’’انکل! یہ آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ یہ فضول شے کہاں سے اٹھالائے ہیں آپ؟‘‘ 

’’وہاں سے جہاں تم نے اسے پھینک کر احسان فراموشی اور بے قدری کی تھی۔‘‘ انکل اٹھ بیٹھا۔ ’’تم بچے تھے، اپنے بزرگوں کو تم نے اس کرسی پر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ میں دیکھ چکا ہوں، اپنے دادا جان کو بھی۔ اپنےابا جان کو بھی۔ اس کرسی کا اپنا رعب داب تھا۔ لوگ آتے تھے تو اس کی طرف اپنی پشت نہیں کرتے تھے۔ اس قدر احترام کرتے تھے وہ سب لوگ اس کا۔ یہ کرسی ہمارے خاندان کا بے بہا ورثہ تھی۔ تم نے اس کی قدر نہ پہچانی اور اسے ردی چیزوں میں پھینک دیا۔‘‘ 

انکل نے شدید جذباتی لہجے میں یہ الفاظ کہے اور اس کی خفگی آمیز نظریں اپنے بھتیجے کے چہرے پر شعلہ زنی کر رہی تھیں۔ 

’’کیسی باتیں کرتے ہیں انکل آپ! وہ زمانہ لد گیا ہے۔‘‘ 

’’زمانہ لد گیا ہے مگر خاندانی ورثہ تو موجود ہے۔ یہ ہماری خاندانی کرسی ہے۔‘‘ 

’’دیکھیے انکل؟‘‘ اب نور کا لہجہ نرم اور مصالحت آمیز تھا۔‘‘ گاؤں کے سارے معزز لوگوں کو آپ کی آمد کا علم ہوچکا ہے۔ وہ آپ سے ملنے کے لیے آئیں گے۔ میں نے یہ قیمتی فرنیچر ہزاروں روپے خرچ کرکے خریدا ہے۔ یہاں کسی حویلی میں بھی ایسا شاندار فرنیچر نہیں ہے۔ اس شاندار فرنیچر میں یہ بدنما فضول اور بے کار کرسی، کیا کہیں گے یہ لوگ۔ انکل۔‘‘ 

’’یہ کرسی یہیں رہے گی۔‘‘ انکل کے فقرے سے اس کے مصمم ارادے کا اظہار ہو رہا تھا۔ 

ان لمحوں میں صفیہ آگئی۔ 

’’اس وقت آپ باہر چلیے۔‘‘ اور وہ اپنے شوہر کو باہر لے گئی۔ 

’’اس وقت انکل پاگل ہوگئے ہیں۔ کرسی ڈرائنگ روم سے ہٹاکر صحن میں رکھوادیتے ہیں۔ آپ انھیں کہیں باہر لے جائیں۔‘‘ صفیہ نے کمرے سے باہر نکل کر شوہر کو مشورہ دیا۔ 

رات کے ساڑھے نو بجے تک انور انکل کو ادھر ادھر لیے پھرا۔ اس نے گاؤں کے سارے حصے اسے دکھا دیے۔ مگر واپس آکر، کھانا کھانے کے بعد انور انکل کو خدا حافظ کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور انکل سے کہا کہ آپ تھک چکے ہیں۔ سو جائیں جاکر۔‘‘ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوکر اپنے اپنے کمروں کی طرف جانے لگے۔ پھر رات بیت گئی۔ 

حویلی میں سب سے پہلے غنی بیدار ہوتا تھا، وہ ناشتے کا سامان لاتا تھا اور جب صفیہ کمرے سے باہر آتی تھی تو باورچی خانے میں سارا سامان موجود ہوتا تھا۔ مگر اس صبح وہ انور کے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ 

یہ ایک خلاف معمول واقعہ تھا۔ انور آنکھیں ملتا ہوا باہر آگیا۔ 

’’کیوں غنی؟‘‘ غنی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ 

’’ہوا کیا ہے۔‘‘ 

غنی چپ چاپ ایک طرف چلنےلگا اور انور اس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھانے لگا۔ 

دونوں دالان میں پہنچ گئے تھے۔ 

انور کی حیرت زدہ نگاہیں ایک عجیب نظر دیکھ رہی تھیں۔ اس کا انکل خاندانی کرسی میں بے حس و حرکت پڑا تھا۔ اوس کے قطرے اس کے بالوں پر، چہرے پر، کپڑوں پر چمک رہے تھے۔ 

’’انکل، انکل۔‘‘ انور نے بار بار پکارا مگر انکل کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی، اس کے جسم کو کوئی حرکت نہ ہوئی۔ 

تھوڑی دیر بعد انور اور غنی نے مردہ انکل کواٹھاکر، اندر ایک کمرے میں پلنگ پر لٹادیا اور اسے چادر سے لپیٹ دیا۔ 

ساری حویلی کی فضا میں ایک ماتمی سناٹا چھایا ہوا تھا اور سورج نصف النہار پر آچکا تھا۔ 

لوگ آ جا رہے تھے۔ 

اتنے میں غنی نے آکر بتایا۔ 

’’جی مولوی صاحب آگئے ہیں۔۔۔ میت کو نہلانے کے لیے گرم پانی چاہیے۔‘‘ 

’’تو لے آؤ لکڑیاں۔‘‘ 

’’میاں جی! پٹھان کا ٹال بند ہے۔‘‘ 

انور کچھ سوچنے لگا۔ وہ ایک آدھ منٹ سوچتا رہا۔ 

’’غنی۔ وہ دالان میں پرانی کرسی پڑی ہے نا۔۔۔ اسے توڑ کر چولہے میں جلادو۔‘‘ 

غنی دالان کی طرف جانے لگا۔ اور انور ان لوگوں کی جانب بڑھا جو اس کے انکل کی موت کی خبر سن کر اظہار افسوس کے لیے حویلی میں آئے تھے۔ 

   1
0 Comments